میرا پر امن شھر برسوں دیشت گردی کا شکار رہا اس دوران ان گنت داستانوں نے جنم لیا کچھ رقم ہویں کچھ نہیں ہو سکیں۔ ان ہی ان کہی داستانوں میں سے ایک
شھبازبہت دیر سے وہاں بیٹھا تھا سامنے ٹیبل پر چائے کا خالی کپ رکھا تھا
وہ اپنی سوچوں میں گم تھا کہ ایک آواز اس کے کانوں میں آئی بھائی چائے پراٹھہ کھلا دو
اس نے ناگواری کے ساتھ دیکھا اور سخت لہجے میں جواب دیا چل بے دفع ہوجا
سوال کرنے والے نے گردن جھکا لی اور وہاں سے کھسک جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی
اس کا موڈ پہلے سے ہی کافی خراب تھا مہینے کی آخری تاریخیں چل رہی تھیں تنخواہ میں ابھی ایک ہفتہ باقی تھا
وہ اس ہوٹل پر بیٹھا اپنے دوست ذیشان کا انتظار کر رہا تھا اور کوفت کا شکار تھا
بالاآخر ذیشان آتا ہوا نظر آیا اس نے ہاتھ کے اشارے سے اپنی موجودگی کی نشاندہی کی۔۔۔
ابے کہاں مر گیا تھا یہ تیرے ۱۵ منٹس ہوئے ہیں ڈیڑھ گھنٹے سے خوار ہو رہا ہوں نا فون اٹھارہا تھا نہ میسج کا جواب دیا تو نے
بائیک پنکچر ہو گئی تھی یار اور شور شرابے میں پتہ نہیں چلا کہ فون کب بجا۔۔۔۔ ذیشان نے عادت کے مطابق مسکراتے ہوئے جواب دیا
چل بیٹا چائے منگوا سر درد سے پھٹ رہا ہے
او خان ۲ دودھ پتی کڑک جلدی سے بھیجو
بس ابھی لایا خان نے مسکرا کے جواب دیا
چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دونوں نے سگریٹ سلگائی اور کش لینے لگے
اب بتا کیا مسلئہ ہے کیوں پریشان ہےذیشان نے پوچھا
یار تجھے پتہ ہے میری تنخواہ میں گذارہ کتنی مشکل سے ہو رہا ہے
ہر مہینے قرض لینے کی نوبت آجاتی ہے اب اماں کو فرحت کی شادی کرنی ہے
لڑکے والے تاریخ مانگ رہے ہیں
کچھ سمجھ نہیں آرہا کیا کروں
اسی دوران ۲ بچے وہاں تصویروں والی کتابیں لیکر آگئے اور شھبازسے مخاطب ہوئے بھائی کتاب لے لو شھبازنے ہاتھ کے اشارے سے ان کو جانے کو کہا اور پھر بات شروع کی یار تم کو اسی لئے بلایا کہ تم کوئی پارٹ ٹائم جاب کا کہہ رہے تھے نا؟؟؟؟
وہ تو پرانا قصہ ہو گیا دوست اس وقت تم نے جواب نہیں دیا تو میں نے کسی اور کو بھیج دیا
دونوں بچے اب ذیشان کے پیچھے پڑے تھے کہ وہ کتاب خرید ہی لے
زیشان پیار سے سمجھا ہی رہا تھا کہ شھبازکا پارہ ہائی ہوگیا وہ زور سے چیخا ۔۔۔۔۔۔سنتے کیوں نہیں اب نظر آئے تو تھپڑ ماردوں گا سالے بات نہیں کرنے دے رہے
ذیشان: کیا ہو گیا شھبازبچے ہیں اتنا غصہ کیوں کر رہے ہو
ٹھیک ہے تو بیٹھ میں جا رہا ہوں ذیشان روکتا رہ گیا مگر شھبازنے بائیک اسٹارٹ کی اور چلا گیا۔۔۔۔
شھبازپڑھا لکھا نوجوان تھا مگر وقت اور حالات کے تھپیڑوں کی وجہ سے بہت چڑچڑا اور غصہ ور ہو گیا تھا
یہی حال اس کا گھر پر بھی تھا معمولی باتوں پر چیختا چلاتا رہتا تھا
ماں اور بہنیں اس کے غصے سے بہت پریشان رہتی تھیں
اس دن کے بعد شھبازنے ذیشان سے کوئی رابطہ نہیں کیا کئی مہینے گذر گئے
ذیشان نے کئی ٹیکسٹ میسج کئیے کالز کئیں مگر شھبازتو بالکل اسکرین سے غائب تھا
اس دوران کئی مرتبہ وہ شھباز کے گھر بھی گیا مگر ملاقات نہیں ہو سکی اس کی والدہ سے بس اتنا معلوم ہوا کہ وہ بہت مصروف ہے کوئی نئی جاب مل گئی ہے پیسے اچھے مل رہے ہیں مگر دن اور رات مصروف رہتا ہے
ذیشان نے خوشی کا اظہار کیا ک چلیں اچھا ہے وہ مالی حالات سے پریشان رہتا تھا اب سب بہتر ہو جائے گا
اس نے شھباز کی والدہ کو خدا حافظ کیا اور وہاں سے روانہ ہو گیا اس کو امید تھی کہ جب شھباز کو اس کے آنے کا معلوم ہو گا تو وہ خود رابطہ کرے گا لیکن کئی ہفتے گذر گئے شھباز نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
چند دنوں بعد شھباز کی والدہ کا فون آیا کہ بیٹا اگر وقت ہو تو گھر آجاو جی سب خیریت ہے آنٹی؟
ہاں ہاں سب خیریت ہے فرحت کی شادی کا سلسلہ ہے بیٹا کچھ مشورے کرنے ہیں
ٹھیک ہے آنٹی ضرور آوں گا
شہر کے حالات اکثر خراب رہتے تھے اس لئیے ذیشان آفس سے سیدھا گھر چلا جاتا تھا
اس نے سوچا کے اتوار کو شھبازکے گھر چکر لگا کے آئے گا مگر حالات خراب ہوگئے وہ نہیں جاسکا
یہ جون کی ایک گرم شام تھی حالات کافی حد تک بہترہو چکے تھے
ذیشان آفس سے نکل کر سیدھا جوہر موڑ کے قریب پٹھان کے چائے کے ہوٹل پر پہنچا
آج شھبازنے اسے خود فون کر کے ہوٹل پر بلایا تھا۔۔۔۔۔
مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ ہوٹل پر موجود نہیں تھا ورنہ وہ ہمیشہ پہلے سے پہنچا ہوتا تھا
کچھ دیر بعد ہی وہ وہاں پہنچ گیا اور آتے ہی اس نے کہا چل بیٹا چائے منگوا لے
کچھ دیر میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ذیشان نے اس سے پوچھا
بھائی یہ تو بتاو کہاں غائب تھے نا فون کا جواب نا میسجز کا جواب تمہیں معلوم ہے ذندگی میں پہلی مرتبہ گزشتہ 7 مہینے سے تم نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا ایسا کیا ہے جس نے تمہیں اس قدر مصروف کر دیا کہ تم نے مجھے بھلا ہی دیا؟
ابے وہی تو بتانے کے لئیے بلایا ہے شھباز حیرت انگیز طور پر مسکراتے ہوئے بولا
پھر اس نے شرٹ کے اندر ہاتھ ڈال کر ایک شادی کارڈ نکالا اور ذیشان کے سامنے رکھ دیا
یار فرحت کی شادی ہے اسی انتظام میں لگا ہوا تھا
ذیشان نے شکائتی لہجے میں کہا ۔۔۔۔بچپن کی دوستی کا یہ صلہ غیروں کی طرح دعوت دے رہے ہو؟
شھبازنے جواب دیا کہ یہ سب اچانک ہوا پیسے کا انتظام بھی کرنا تھا تو بالکل وقت نہیں ملا
بس اب تو دعا کر باقی سارے کام بھی خوش اسلوبی سے ہوجائیں۔۔۔۔۔
چلو بہت مبارک کیسے ہوا پیسوں کا انتظام اس نےشادی کارڈ پڑھتے ہوئے سوال کیا
یہ کسی اور وقت بتاوں گا سمجھو کوئی ایسا مل گیا جو میری مدد کر رہا ہے میرا محسن ہے میری نئی نوکری کا انتطام بھی اسی نے کیا۔
ذیشان نے سوال کیا کون ہے وہ اور تم کہاں جاب کر رہے ہو؟
یہ بھی کسی اور وقت بتاونگا بس ابھی تمہیں یہی بتانے کے لئے بلایا تھا بس اب میں نکلوں گا۔۔۔۔
بارات کا انتظام سخی حسن کے ایک مہنگے شادی ہال میں کیا گیا تھا ذیشان بھی اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ تقریب میں موجود تھا
کھانے میں بہت ساری ورائیز موجود تھیں بہت ہی شاندار اور کسی بہت ہی اعلی کیٹرنگ سے بنوایا گیا تھا ہر چیز سے لگ رہا تھا کہ دل کھول کر پیسہ خرچ کیا گیا ہے
ذیشان کی والدہ اوربہنیں بھی یہ سب دیکھ کر بہت حیران تھیں ظاہر سی بات تھی وہ بچپن سے شھباز اور اسکی فیملی سے واقف تھیں مگر ذیشان کی نگاہیں کچھ اور دیکھ رہی تھیں
اس کی نطروں کا محور شھباز کے ساتھ گھومتے پھرتے ہوئے دو نوجوان جن کو دیکھ کر ذیشان بہت حیران تھا
ذیشان نے کئی مرتبہ شھباز سے پوچھا کہ کوئی کام ہے تو بتاو مگر اس نے ہر بار یہی کہا تم اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھو سارے انتظامات شاداب بھائی دیکھ رہے ہیں
شاداب بھائی سے جب وہ ملا تو ان کا حلیہ اور اسٹائل دیکھ کر اسے محسوس ہوا کہ یہ کچھ اور ہی معاملہ ہے اور پھر یہ دو نوجوان ان کو تو وہ جانتا تھا مگر شھباز ان کے ساتھ یہ حیران کن تھا
دونوں نوجوان ایک سیاسی پارٹی کے بہت ایکٹو ممبر تھے ان میں سے ایک بہت مشہور تھا اور وجہ شہرت اس کا اثر رسوخ اور غنڈہ گردی میں اس کے شاندار ریکارڈ تھے۔۔
زیشان کی حیرانگی کی وجہ یہ تھی کہ شھباز تو بہت چڑتا تھا ان لوگوں سے اور پھر وہ شاداب بھائی وہ تو بہت ہی خطرناک سا آدمی لگ رہا تھا یقینا شھباز نے پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے مگر شھباز نے اگر پارٹی میں شمولیت اختیار کر بھی لی ہے تو ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے اتنا پیسہ خرچ کیا گیا اور وہ مہربان کون ھے کیا شاداب بھائی ہیں؟؟؟؟
یہ سارے سوالات اس کے ذہن میں گردش کر رہے تھے اسی دوران کچھ غیر معمولی ہلچل سی ہوئی پھر اس نے کئی پولیس گارڈز کے ساتھ ہال میں داخل ہونے والے شخص کو دیکھا جس کو دیکھ کر بہت سارے لوگ بہت حیران بھی ہوئے
ذیشان تو مبہوت ہوگیا آنے والا شخص ایک بہت مشہور ممبر قومی اسمبلی تھا جو کہ پچھلے ادوار میں صوبائی اور وفاقی وزیر بھی رھ چکا تھا
اس رات زیشان سو نہیں سکا اس کی آنکھوں نے جو کچھ دیکھا تھا اس پر یقین نہیں آرہا تھا
وقت گزرتا رہا اب اسکی مہینوں شھباز سے بات نہیں ہو پاتی تھی اس نے شھباز کے گھر جانے کا فیصلہ کیا اور اگلے اتوار کے دن وہ گھر جا پہینچا بیل بجانے پر شھباز کی چھوٹی بہن نزہت نے گیٹ کھولا اور ذیشان کو دیکھ کر اس نے مسرت کا اظہار کیا آئیے آئیے ذیشان بھائی امی بہت دنوں سے آپ کو یاد کر رہی تھیں
ذیشان ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھ گیا کچھ ہی دیر میں شھباز کی والدہ وہاں آگئیں اور سلام دعا کے بعد ذیشان نے شھباز کا معلوم کیا کہ وہ کہاں ہے ذیشان کو امید تھی کہ وہ سو رہا ہوگا کیونکہ عموما اتوار کو وہ بہت دیر تک سوتا رہتا تھا
بیٹا وہ تو گھر پر موجود نہیں معلوم نہیں آج کل کہاں غائب رہتا ہے پتہ نہیں کیسی نوکری ہے نا دن کا پتہ نا رات کا نا جمعہ کا معلوم نا اتوار کا۔
ذیشان کافی دیر وہاں بیٹھا مگر شھباز نہیں آیا اس دوران اس نے کئی مرتبہ کالز بھی کئیں مگر اس نے فون نہیں اٹھایا۔ وہ مایوس ہو کر وہاں سے اجازت لیکر گھر روانہ ہوا
ذیشان منتظر رہا کہ جب شھباز کو پتہ چلے گا کہ وہ گھر آیا تھا تو وہ ضرور فون کرے گا مگر دن گزرتے گئے
کہ اک دن اچانک شھباز کا فون اس کے پاس آگیا
اسنے اپنے مخصوص انداز میں کہا بیٹا چائے پینے آرہا ہوں آج رات لیکن آج اس ہوٹل پر نہیں بلکہ گلشن اقبال کے ڈی اے مارکیٹ آجانا رات 9 بجے تک
ذیشان 9 بجنے سے پہلے ہی بتائی گئی جگہ پر پہنچ گیا رم جھم مارکیٹ کے ساتھ چائےکے ہوٹل پر بیٹھے اس کو کافی دیر گذر گئی مگر ابھی تک شھباز کا پتہ نہیں تھا
ابھی ذیشان اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ وہ کال کرے کہ نہیں کہ ایک سیاہ رنگ کی کرولا وہاں آکر رکی اور اسمیں سے شھباز برامد ہوا
شھباز کو دیکھ کر ذیشان کو اطمینان ہوا مگر ساتھ ہی شھباز کے اسٹائل دیکھ کر حیران بھی ہوا۔۔۔۔۔۔
اس کے کپڑے بالوں کا اسٹائل سب کچھ تعبدیل ہو چکا تھا ٹیبل پر بیٹھے ہی اس نے 555 کا پیکٹ اور لائٹر میز پر رکھا ۔۔۔۔۔
ذیشان نے پوچھا گاڑی کب لی شہباز؟ گاڑیاں بہت میرے بھائی مسلہ ہی کوئی نہیں شھباز نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
ذیشان کو اس جواب پر غصہ تو بہت آیا مگر وہ چپ ہو رہا اور ماضی میں کھو گیا ایک وقت تھا کہ شھباز کے پاس سگریٹ اور چائے پینے کے لئیے پیسے نہیں ہوتے تھے ۔۔ ذیشان کے فلیٹ کے نیچے جو پٹھان کا ہوٹل تھا وہ وہاں بیٹھ کر زیشان کے کھاتے میں چائے پیتا تھا اور سگریٹ کے لئیے ذیشان کی آمد کا منتظر ہوا کرتا تھا۔۔۔۔۔ او بھائی میں تمہاری شکل دیکھنے کو نہیں آیا یہ بتانے آیا ہوں کہ کچھ عرصے شائد ملاقات نا ہو سکے۔۔۔
کیوں بھئی ایسا کیا ہے بتاو مجھے ذیشان نے بے صبری سے پوچھا ۔۔۔
وقت آنے پر میں تم کو سب بتا دوں گا شھباز کے اس جواب پر ذیشان نے کڑوا منہ بنا کر پوچھا اور وہ وقت کب آئے گا؟؟
ابھی گفتگو جاری ہی تھی کہ
شھباز کا فون بجا اس نے ذرا دور جا کر کال سنی اور پھر یہ کہتے ہوئےروانہ ہوگیا کہ بلاوا آیا ہے ہم پھر ملیں گے
ذیشان کچھ دیر سوچ میں ڈوبا وہیں بیٹھا رہا پھر وہ بھی چل دیا رات بھی ذیشان شھباز کے بارے میں سوچتا رہا کہ آخر شھباز ایسا کیا کر رہا ہے جو اسکو اسقدر نوازا جا رہا ہے اس کو اپنے سوالوں کے جواب تو نہیں ملے پر نیند ضرور آگئی۔۔۔
تیسرے ہی دن ذیشان کو اپنے سب سوالوں کے جواب مل گئے
وہ آفس سے نکل کر جیسے ہی پارکنگ میں آیا اور ابھی بائک نکال ہی رہا تھا کہ شلوار قمیض میں ملبوس 2 لوگ اس کے قریب آئے اور ایک نے اسکو بازو سے پکڑ لیا ذیشان سمجھا کہ ڈاکو ہیں مگر انھوں نے اپنا تعارف سی آئی اے اہلکار کی حیثیت سے کروایا اور کہا تم کو ابھی اسی وقت ہمارے ساتھ چلنا ہو گا
کچھ دیر میں ہی ایک موبائل وہاں آگئی اور ذیشان
کو اس پر بیٹھا دیا گیا اس کی شرٹ اسکی آنکھوں پر باندھ دی گئی تھی
ذیشان کے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا
موبائل مختلف سڑکوں سے ہوتے ہوئے ایک عمارت میں داخل ہوئی ذیشان کو اتارا گیا تا ہم اسکی آنکھوں سے پٹی نہیں اتاری گئی
اسے ایک کمرے میں لے جایا گیا اور ایک کرسی پر بٹھا کر وہ اہلکار وہاں سے چلے گئے
ذیشان کو محسوس ہوا کہ اس کے علاوہ کمرے میں کوئی اور بھی موجود ہے اس نے ہلکی اواز سے پوچھا کوئی ہے مگر اسکو کوئی جواب نہیں ملا تو کچھ تاخیر کے بعد اس نے نسبتا اونچی آواز سے کہا کہ کوئی ہے اس بار کوئی کھانسا پھر ہلکی آواز میں بولا کیا بات ہے؟ اس نے پوچھا بھائی کیا آپ بھی قید ہیں؟
جواب میں گہری خاموشی چھائی رہی صرف پرانے پنکھے کی آواز سنائی دے رہی تھی
ذیشان چپ ہو کر بیٹھا رہا اسے اب پیاس نے ستانا شروع کیا مگر وہ خاموش رہا اور دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرتا رہا
یوں کافی وقت گزر گیا ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اسے یہاں لیکر آنے والے کسی اور کام میں مشغول ہو کر اسے بھلا بیٹھے ہیں۔
اچانک دروازہ کھلنے کی آواز آئی کوئی ذیشان کے قریب آیا اور مخاطب ہوا چل بھائی تیرا بلاوہ آیا ہے
اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا گیا اور ایک اور کمرے میں لے جایا گیا اس بار اسے کھڑا رکھا گیا
ایک کرخت آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی کیا نام ہے تمہارا۔۔۔۔۔
ذیشان احمد۔۔۔۔۔ اسکی باریک سی آواز سن کر مخاطب جھلا گیا اور چیخ کر بولا اونچی کر اپنی آواز اس کے ساتھ ہی ایک زوردار تھپڑ اس کے گال پر پڑا ذیشان بوکھلا سا گیا
اور اونچی آواز سے بولا ذیشان احمد نام ہے میرا
اوئے رشید اسکی پٹی اتار یہ سن کر کسی نے پیچھے سے اسکی آنکھوں سے پٹی اتاری
اس نے دیکھا اس کے سامنے ایک کریہہ شکل والا شخص کھڑا ہے اس کے سامنے ایک ٹیبل اور چند کرسیاں ہیں
اس شخص نے سفید رنگ کا شلورا قمیض پہن رکھا تھا ساتھ ہی رینجرز کے 2 ایلکار بھی موجود تھے
سن میرا نام انسپکٹر رانا نذیر ہے میں ان کاونٹر اسپیشلسٹ ہوں اور پیار سے مجھے جلاد بھی کہتے ہیں میں مارتا کم ہوں رلاتا زیادہ ہوں
وہ دوبارہ مخاطب ہو ہاں اگر یہاں سے اپنے پاوں پر چل کر واپس جانا چاہتے ہو تو جو پوچھوں اسکا سچ سچ جواب دو
جی سر مگر مجھے سمجھ نہیں آرہا میرا کیا قصور ہے مجھے کیوں یہاں لایا گیا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے یہ کہتے ہوئے
اسکی آواز بھرا گئ
شھباز کو جانتے ہو پوچھا گیا
جی سر وہ میرا دوست ہے۔۔۔ ہمیں معلوم ہے وہ دوست ہے تمہارا ابھی تم بتاو وہ کہاں ہے؟
سر 3 دن پہلے ملاقات ہوئی تھی میری ۔۔۔
اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔
انسپکٹر نے لمبی سانس لینے کے بعد کرخت لہجے میں جواب دیا ہمیں معلوم ہے تمہیں اس کی سرگرمیوں کے بارے میں جو جو پتہ ہے فر فر بتا دو ورنہ مجھے تشدد کرنا پڑے گا تم ایک شریف آدمی ہو مجھے معلوم ہے لیکن سچ جاننے کے لئیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں میں کسی پر رحم نہیں کرتا
سر آپ یقین کرئیں کافی عرصہ سے وہ بات رہی نہیں ہمارے درمیان بہت فاصلہ آگیا ہے اسکی مالی حالت ٹھیک نہیں تھی مگر اچانک اس کے پاس دولت کی ریل پیل ہو گئی میں نے کئی بار معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہ کیا کر رہا ہے مگر اس نے کبھی مجھے کچھ نہیں بتایا اگر بتایا ہوتا تو شائد میں اسکو اس دلدل میں گرنے سے روکتا کہ آج اسکی وجہ سے میں یہاں بیٹھا آپ کے سوالوں کا جواب دے رہا ہوں۔ وہ میرا بچپن کا دوست ہے مزاج کا سخت ہے حالیہ دنوں میں اس کے پاس اچانک روپیہ کہاں سے آیا یہ سوال میرے ذہن میں بار بار آیا لیکن وہ کسی غیر قانونی کام میں ملوث ہو گا یہ اندازہ نہیں تھا
دوران انسپکٹر رانا سگریٹ کے کش لیتا رہا
اب تم اپنا موبائل نکالو اور اس کو کال کرو تمہارا فون وہ اٹھائے گا
جگہ وہ بدلتا رہتا ہے ہم نے اسکو ٹریس کر لیا تھا مگر وہ نکل گیا ۔۔ مخبری ہو گئی ہوگی سر پیچھے سے کوئی سپاہی بولا
زیشان نے کہا سر میرا موبائل تو میرے پاس نہیں وہ تو آپ کے لوگوں نے مجھ سے لے لیا تھا
اوئے لعنت ہو او اس کا موبائل لا کر دو فورا
کچھ دیر میں اس کا موبائل فون اس کو لا کر دے دیا گیا زیشان نے شھباز کا نمبر ڈائل کیا مگر اسکا فون بند آرہا تھا
سر! نمبر بند ہے زیشان نے بلند آواز سے کہا
ٹھیک ہے ہر تھوڑی دیر بعد کال کرتے رہو ۔ اس طرح وہ کئی مرتبہ نمبر ڈائل کرتا رہا مگر شھباز کا نمبر بدستور بند تھا۔
بالآخر رات 9 بجے پہلی مرتبہ ذیشان کے نمبر پر گھنٹی بجی مگر اس نے کال وصول نہیں کی۔۔۔۔۔۔
انسپکٹر کی آنکھیں ذیشان پر مرکوز تھیں اس نے بے صبری سے کہا اوئے دوبارہ کر فون۔۔۔۔۔
اس بار دوسری طرف سے فون اٹھا لیا گیا مگر وہ شھباز نہیں تھا کون بات کر رہا ہے شھباز نے اونچی آواز میں پوچھا
دوسری طرف موجود شخص نے جواب دیا تم کو کس سے بات کرنی ہے
یہ شھباز کا نمبر ہےمیں ذیشان ہوں شھبازکا دوست۔۔۔۔ تم کون ہو؟
دوسری طرف سے لائن کاٹ دی گئی اس دوران رینجرز کے دونوں اہلکار بالکل خا موش تھے
اچانک ایک آوز نے ذیشان کو چونکا دیا
کسی شخص نے انسپکٹر سے مخاطب ہو کر کہا سر ابھی اطلاع ملی ہے کہ شھباز جیسا اک بندہ عباسی کی ایمرجینسی میں لایا گیا
ہے فائر لگے ہیں اس کی حالت نازک ہے۔۔۔۔۔
ذیشان کو دوسرے کمرے میں منتقل کر دیا گیا مگر اس بار اسکی آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی گئی
ذیشان اس کمرے میں پریشانی کے عالم میں بیٹھا رہا اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا اور اب آگے کیا ہونے والا ہے
کیا واقعی اسپتال پہنچایا جانے والا زخمی شھباز ہی ہے؟
وہ کیسے زخمی ہوا؟ پولیس شھباز کو کیوں تلاش کر رہی تھی؟
ذیشان کے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں تھے وہ سب جاننا چاھتا تھا اس کی چھٹی حس نے شھباز کے بدلے ہوئے انداز و اطوار دیکھ کر ہی اسے خطرے کا احساس دلا دیا تھا۔
وہ بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا رہا اس دوران اس کے لئیے کھانا اور پانی وغیرہ بھی لایا گیا
کھانا تو اس کھایا نہیں گیا مگر دو چار لقمے اس نے بحرالحال لے لئیے اس کے لئیے وقت گذارنا مشکل ہو رہا تھا –
رات گئے سپاھی اس کو دوبارہ اس انسپکٹر کے کمرے میں لے گئے اس بار اس کو کرسی پیش کی گئی اس دوران انسپکٹر رانا نذیر وہاں آگیا۔
آتے ہی اس نے ذیشان کو مخاطب کیا اور بولا بھائی تیرا دوست بچ گیا ہے 3 گولیاں ماری گئیں تھیں مگر وہ اب ٹھیک ہے کیونکہ بروقت اسپتال پہنچا دیا کسی نے۔۔۔۔۔
اب تمہارا کام ختم ابھی سپاہی تم کو گھر چھوڑ آئیں گے۔۔۔۔۔
شکریہ سر لیکن اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے بتائیں کہ یہ ماجرا کیا ہے؟
شھباز کو کس نے گولی ماری ؟ آپ لوگ کیوں اسکو تلاش کر رہے تھے؟
وہ کیا کرتا پھر رہا تھا؟ اچانک اس کے پاس مال و دولت کہاں سے آگیا ؟ یہ وہ سوال ہیں سر جن کے جواب کے بغیر اگر میں گھر چلا گیا تو مجھے نا نیند آئیگی نا کسی طور چین آئے گا؟
ابے بس کر میرے پاس تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں ہے او اکرم لے کر جاو اسکو جا کر گھر چھوڑ کر آو۔
سپاھی نے ذیشان کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور اسے کہا چلو باہر چلو اس دوران انسپکٹر رانا نذیر اپنی کرسی سے اٹھا اور اس کے قریب آیا اور نسبتا آہستہ آواز میں بولا یہ ہائی پروفائل کیس ہے تیرا دوست ایک ٹا رگیٹ کلر ہے جو ایک لسانی تنطیم کے لئیے کام کر رہا تھا اس پر 11 قتل کے مقدمات درج ہیں جس میں ایک بہت ہائی پروفائل ٹارگٹ کلنگ بھی شامل ہے بس باقی تفصیل جب وہ ہوش میں آئے گا تو خود بتائے گا پریس اور ٹی وی کے زریعہ تم کو معلوم ہو جائے گا۔
پھر جب جیل جائے گا تو خود جیل جا کر پوچھ لینا جاو اب گھر جاو تم ایک شریف لڑکے ہو مجھے افسوس ہے کہ تم کو یہاں بلایا اور تفتیش کی مگر ہماری بھی مجبوری ہے۔۔۔۔۔۔۔
واپسی پر ذیشان کے کانوں میں انسپکٹر رانا نذیر کے جملے گونج رہے تھے تیرا دوست ایک ٹارگٹ کلر ہے۔۔۔۔۔
اگلے دن وہ شھباز کے گھر جا پہنچا اس بار شھباز کے گھر والے بہت پریشان نظر آرہے تھے
اس کی امی ذیشان کو گلے لگا کر رونے لگیں بیٹا یہ کیا ہو گیا تمہیں کچھ معلوم ہے ؟؟؟؟؟ ہمیں تو پولیس والے اس سے ملنے بھی نہیں دے رہے۔
ذیشان نے مختصر الفاظ میں خود پر گذری روداد انہیں سنا دی پھر کچھ دیر کے لئیے خاموشی چھا گئی
ذیشان کی والدہ نے آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا کہ ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ کنسٹرکشن کا کام کر رہاہے دن رات کام ہوتا ہے
کوئی بہت بڑا بلڈرز ہے جو اس قدر نواز رہا ھے ہمیں تو کل پتہ چلا کہ میرا بیٹا قاتل ہے انسانوں کی جان لینے کے پیسے لے رہا ہے
کیا یہ سچ ہے بیٹا؟؟؟؟
میرا شھباز ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ کہاں رھہ گئی میری تربیت میں کمی؟
وہ تو بہت معصوم تھا ہاں غصے کا تیز تھا مگر یوں کسی کی جان لے گا دہشت گرد بن جائے گا ایسا ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے
تم بتاو تم تو اس کے بچپن کے دوست ہو کیا وہ ایسا تھا؟
نہیں آنٹی ہرگز نہیں وہ تو نفرت کرتا تھا اس طرح کے کاموں میں ملوث افراد سے پھر وہ کیسے اس جال میں پھنسا؟
میں نے کئی بار اس سے پوچھا لیکن ہر بار اس نے مجھے جواب دینے سے گریز کیا ہمیشہ یہ کہا کہ سب بتادوں گا جب وقت آئے گا
یہ تو طئے ہے کہ وہ اس جال میں پھنس چکا تھا مگر کیسے یہ جاننا ضروری ہے اس پر کیا کیا الزامات ہیں اور ابھی تک وہ اسپتال میں ہے اس کی حالت کے بارے میں ہم وسوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ابھی ہم صرف دعا کر سکتے ہیں کہ وہ جلد از جلد صحت یاب ہو جائے
چند دنوں بعد شھباز کی حالت خطرے سے باہر ہوئی صرف اس کی ماں بہن سے ملاقات کروائی گئی وہ بھی پولیس کی موجودگی میں دوران ملاقات ماں بیٹے روتے رہے اسپتال میں ذیشان کی شھباز سے ملاقات نہیں ہو سکی اجازت نہیں ملی
شھباز کی والدہ اور بہن کی شھباز سے کیا بات چیت ہوئی ذیشان نےمعلومات حاسل کرنے کی کوشش کی مگر کوئی کام کی بات معلوم نہیں ہو سکی۔
کچھ دنوں بعد یو ٹیوب پر اس کا ایک اعترافی بیان شھباز نے دیکھا لیکن اس کو اندازہ ہو گیا کہ اس نے کچھ لوگوں کا نام جان بوجھ کر نہیں لیا شائد انجینیرڈ تھا یہ بیان۔۔۔۔۔۔
وقت بہت تیزی سے گزر گیا ایک دن جب شھباز کو کورٹ میں پیش کیا گیا ذیشان کی اس کی والدہ کے ساتھ شھباز سے ملا قات ہوئی جو کہ تقریبا نصف گھنٹے پر محیط تھی
اس بار بھی شھباز باتوں کو گھماتا رہا تو ایک دم ذیشان کا پارہ چڑھہ گیا وہ چیخ کر بولا تم مجھے بیوقوف بنا سکتے ہو اپنی والدہ کو بھی جھوٹی کہانیاں اور تسلیاں دے سکتے ہو مگر قانون اور اداروں سے جھوٹ بول کر بچ نہیں سکتے وہ تمہیں ان الزامات میں پھانسی چڑھا دئیں گے۔۔
دیکھو اب بھی وقت ہے سچ بتا دو ان لو گو ں کو بے نقاب کرو جنھوں نے تمہیں اس دلدل میں دھکیل دیا تھا۔
انھی دنوں صولت مرزا کا کیس بھی چل رہا تھا اور اس کو عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی تھی اور اس کے پشت پر موجود تنظیم نے اس کو اپنا کارکن تک ماننے سے انکار کردیا تھا
یہی کچھ شھباز کے معاملے میں ہوا تنظیم نے شھباز کو اپنا کارکن ماننے سے انکار کردیا اور اس کے ہر فعل سے ہر الزام جو اس پر لگا لا تعلقی کا اظہار کردیا اور شھباز کی والدہ کو انتہائی ذلیل کر کے کسی بھی قسم کی قانونی معاونت سے انکار کر دیا۔۔۔۔
شھباز سے ملاقات کے لئیے ذیشان جیل جا پہنچا اور وہاں جا کر اس نے سب کچھ بتا یا اور اس سے ایک بار پھر استدعا کی کہ عدالت میں جا کر سچ بتاو شائد تمہارے بچنے کی کوئی راہ نکل آئے
شھباز کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اس نے کہا 27 تاریخ کو میری کورٹ میں پیشی ہے تم وہاں آجانا میں وہیں تم سے تفصیل سے بات کروں گا
اس دن ذیشان وکیل کے ہمراہ کورٹ پہنچا اسے شہباز سے ملنے کی بہت جلدی تھی اضتراب اس کے چہرے سے عیاں تھا
جیسے ہی بیڑیوں میں جکڑا ہوا شھباز کورٹ پہنچا ذیشان وکیل کے ہمراہ اس تک جا پہنچا وہ وہیں نزدیکی بینچ پر بیٹھ گئے
شھباز نے بولنا شروع کیا ۔۔۔۔۔۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نئی نوکری کی تلاش میں تھا اور فرحت کی شادی سر پر آگئی تھی میری ملاقات ایک کنسترکشن کمپنی میں شاداب بھائی سے ہوئی میں وہاں جاب کی تلاش میں گیا تھا شاداب بھائی وہاں کسی سے ملاقات کے لئیے آئے ہوئے تھے
مجھے بحیثیت اسسٹنٹ میںجر مارکیٹنگ کی آفر ہوئی تنخواہ کم تھی مگر میں نے فوری طور پر جاب کی آفر کو قبول کر لیا۔
جب میں باہر آیا تو شاداب بھائی نے مجھے آواز دی میں ان کے قریب چلا گیا انھوں نے مجھے اپنا فون نمبر دیتے ہوئے کہا کہ کل مجھے فون کر لینا شائد میں تمہارے کسی کام آسکوں
یوں میرا ان سے رابطہ ہوا انھوں نے میرے مذہبی جذبات کو بھڑکایا پولیس کے مظالم کا احساس دلایا اور قوم کے مسائل پر لیکچر دیا میں ان کی باتوں سے ہر گز متفق نہیں تھا
مگر ان کے سامنے کسی بات سے انکار نہیں کر سکا
آہستہ آہستہ انھوں نے مجھے ٹارگٹ کلنگ کا راستہ دکھایا اور لاکھوں روپے کی آفرز دئیں۔
یوں میں نادیدہ طوران کی باتوں کے سحر میں جکڑتا گیا اور مجھے اس کا قطئی احساس بھی نہیں تھا مجھے صرف دولت نظر آرہی تھی
ایک دن انھوں نے مجھے رات کے کھانے پر سی او ڈی کے شنواری ریسٹورینٹ پربلوایا جب میں وہاں پہنچا وہاں مزید 3 افراد شاداب بھائی کے ساتھ موجود تھے بعد میں تعارف کروایا گیا
ان افراد میں اورنگی ٹاون کا سابقہ سیکٹرانچارج محی الدین لانڈھی سے ظفر کالیا بفر زون سے فیصل موٹا شامل تھے
ابھی بات چیت شروع ہوئی تھی کہ وہاں ایک اور شخص پہنچا اس کے ہمراہ ایک دبلا پتلا لڑکا بھی تھا
اس شخص کا نام امتیاز کمانڈو تھا اس کے ہمراہ آنے والا لڑکا عدنان تھا ان دونوں کا تعلق اورنگی ٹاون سے تھا
کچھ دیر بعد بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔
شاداب بھائی نے بتایا کہ عدنان کالا اور طفر کالیا میرے ٹیم ممبر ہوں گے ٹارگٹ کے بارے میں تفصیلات محی الدین، امتیاز کمانڈو اور فیصل بھائی دیا کریں گے۔۔۔۔
اس سے قبل کل سے تمہاری ٹریننگ شروع ہوگی جو کہ امتیاز بھائی اور محی الدین بھائی کروائیں گے
اس کے بعد شاداب بھائی نے سب کو زونگ کی نئی سم دی اور کہا یہ سم آپ جب استعمال کرئیں گے جب کاروائی کا وقت آئے گا
اس کے بعد یہ سم کسی گٹر میں پھینک دینا۔
مجھے پہلا ٹارگٹ کورنگی ڈھائی نمبر میں ایک شیعہ ڈاکٹر کو قتل کرنے کا ملا میرے ساتھ طفر تھا ہم دونوں الگ الگ موٹر سائیکل پر تھے اس ٹارگٹ کی نقل و حرکت کے بارے میں ہمیں ساری معلومات فیصل موٹا نے دی
جیسے ہی وہ ڈاکٹر سوزوکی کٹلس میں بلال چورنگی پہنچا ہم نے اس کا پیچھا شروع کر دیا وہ اس تعاقب سے بے خبر گاڑی چلاتا رہا موقع ملتے ہی ظفر نے گاڑی دائیں جانب سے ماوزر سے 3 فائر کئیے میں دوسری طرف موجود تھا میں نے اپنا ماوزر سیدھا کیا اور 2 فائر کئے گاڑی بے قابو ہو کر فٹپ پاتھ سے جا ٹکرائی ظفر تیزی سے گاڑی کے قریب گیا اور مزید 2 فائر کئیے
کام پورا کرنے کے بعد ہم وہاں سے نکل گئے شاداب بھائی کی ہدائیت کے مطابق سم گٹر میں ڈال دی اگلے دن اخبار میں خبر دیکھی مقتول 3 بچوں کا باپ تھا اس لمحے دل اتھل پتھل ہو گیا اگلے دن تک حالت ایسی ہی رہی
اگلے دن رات 8 بجے شاداب بھائی کی کال آئی انھوں نے چائے پینے کے لئیے ہوٹل پر بلایا وہیں مجھے ایک شاپر میں لپٹے ہوئے 3 لاکھ پچھتر ہزار کی رقم ملی
میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نا رہا اور جو ندامت اور گناہ کا خوف دل میں تھا وہ ختم ہونے لگا
پیسے کی لالچ نے میرے دل سے اچھائی اور برائی کا فرق ختم کردیا میں نے پیسہ کمانے کا شارٹ کٹ ڈھونڈھ لیا دل کی آواز سننا ختم کردیا۔۔۔
ایک کے بعد ایک ٹارگٹ ہمیں ملتے رہے ہر بار نئی سم ہمیں دی جاتی اور ٹارگٹ مکمل ہوتے ہی وہ سم ہم گٹر یا نالے میں پھینک دیا کرتے۔
پھر وہ دن آگیا جب ہمیں ایک ہائی پروفائل ٹارگٹ دیا گیا اس کلنگ سے پہلے ہمیں کئی بار سخت زہنی ٹریننگ سے گزرنا پڑا یہ ٹریینگ اورنگی ٹاون اور بفر زون میں ہوئی اس میں امتیاز کمانڈو، فیصل موٹا، اور محی الدین بھائی ہمیں اس ٹارگٹ کی اہمیت اور کلنگ سے پہلے اور بعد کی حکمت عملی بتاتے رہے۔ کئی بار ہمیں ریکی کروائی گئی اس دوران کئی مرتبہ ہم نے اس مزہبی شخصیت کی گاڑی کا پیچھا کیا اور اطراف کا جائزہ بھی لیا۔
شھباز کی داستان ابھی یہیں تک پہنچی تھی کہ اس کا بلاوا آگیا اور وہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا عدالت میں چلا گیا
جب اسے واپس جیل لے جانے کے لئیے وین میں بٹھایا جا رہا تھا ذیشان نے اسے دور سے ہاتھ ہلایا اور چلا کر کہا کہ انشا اللہ جلد ملیں گے۔۔۔
شھباز جیل چلا گیا اس پر 11 ایف آئی آر درج تھیں جن کے مطابق وہ 14 لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھا اس میں ایک ہائی پروفائل مذہبی شخصیت کی ٹارگٹ کلنگ بھی شامل تھی اس حملے میں ان کا ڈرائیور اور گن میں بھی نشانہ بن گئے تھے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹے تھے۔
شھباز سے اگلی ملاقات کے لئیے ذیشان کو مزید 3 مہینے انتظار کرنا پڑا
آج شھباز کو کورٹ میں پیش کیا جارہا تھا وکیل صاحب کے مطابق آج فیصلہ سنا دیا جسکتا ہے مگر فیصلہ سنانے سے پہلے عدالت شھباز کو موقع دے گی کہ وہ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتا ہے یا اعتراف جرم کرنا چاہتا ہے تو وہ روسٹروم پر آ کر معزز جج کو اپنا بیان دے سکتا ہے۔
ذیشان نے پوچھا وکیل صاحب شھباز اگر تمام جرائم کا اعتراف کر لے تو پھرکیا ہوگا؟؟؟؟
ابھی صولت مرزا کا کیس تم نے سنا ہوگا اعتراف جرم کے نعد بھی جرائم کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھی وکیل نے جواب دیا۔۔۔
لیکن مجھے امید ہے شھباز کو موت کی سزا شائد نا سنائی جائے بحرحال جج کے دماغ میں کیا چل رہا ہے وہ آج معلوم ہو جائے گا۔
اسی دوران شھباز بیڑیوں میں جکڑا وہاں پہنچ کر بینچ پر بیٹھ گیا وکیل اور ذیشان اس کے قریب پہینچ گئے
شھباز کی شیو بڑھی ہوئی تھی جیل کی ذندگی نے اس کی صحت پر منفی اثر ڈالے تھے
ذیشان شھباز کے پاس بیٹھ گیا اور اس کی صحت کے بارے میں دریافت کرنے لگا اسی دوران شھباز کی والدہ بھی ان کے قریب آگئیں والدہ کو دیکھ کر شھباز کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے بھرائی ہوئی آواز میں بہنوں کے بارے میں پوچھا
کچھ دیر دونوں ماں بیٹا آنسووں کی ذبان میں باتیں کرتے رہے ان کے پاس کہنے اور سننے کو کچھ بچا نہ تھا اپنی جنت کو خود اپنے ہاتھوں بر باد کرنے والا شھباز آج سر جھکائے بیٹھا تھا
ذیشان نے شھبباز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا آج شائد جج فیصلہ سنا دے گا تم سارا سچ بیان کر دینا آج تمہیں موقعہ ملے گا اپنی بات کرنے کا۔۔۔شھباز میرے دوست مجھے بتاو جب تم ٹارگٹ کلر بن چکے تھے برے منظم انداز میں کام کر رہے تھے کوئی ثبوت نہیں چھوڑتے تھے تو پولیس کی نظروں میں کیسے آئے؟
اور جب پولیس نے تمہیں گرفتار کیا تم ذخمی تھے تمہیں کس نے زخمی کیا تم کس کی گولیوں کا نشانہ بنے؟؟؟؟؟
شھباز نے لمبی سانس لی تاسف اس نطروں سے چھلک رہا تھا اسے خود پر غصہ بھی تھا اور اپنی حالت پر افسوس بھی
میرے دوست جب ہمیں اس مذہبی شخصیت کی ٹارگٹ کلنگ کا ٹاسک دیا گیا ہمیں گھر جانے کی اجازت نہیں تھی اس دوران ہم ایک گھر میں رھے جو کہ انچولی میں واقع تھا۔
وقوعے والے دن ہم مطلوبہ جگہ پر دوپہر سے موجود تھے ہمارے پاس ماوزر موجود تھے عدنان اور فیصل فوجی(جو حیدرآباد کا رہنے والا تھا اور ایک بھگوڑا فوجی تھا) الگ الگ موٹر سائیکل پر موجود تھے اس کے علاوہ طفر کالیہ اور رئیس تھلے والا سیاہ رنگ کی کلٹس پر موجود تھے۔۔۔۔۔
ہم نے چاروں اطراف سے حملے کا منصوبہ بنایا تھا
اور وہ گھڑی آ گئی ہم ان کی سفید ڈبل کیبن کا پیچھا کرنے لگے دو گن میں پیچھے مستعد بیٹھے ہوئے تھے اسی طرح ہم انکا پیچھا کرتے ہوئےٹارگٹ پوائنٹ تک پہنچ گئے وہاں ظفر کالیہ اور رئیس تھلے والا پہلے سے موجود تھے جیسے ہی ڈبل کیبن ان کے قریب پہنچی انھوں نے کلاشنکوف سے فائرنگ شروع کردی اسی لمحے میں نے بائیں جانب سے عدنان نے دائیں جانب سے
اور فیصل فوجی نے سامنے سے فائرنگ کر دی چاروں طرف سے فائرنگ کی وجہ سے گن میںوں کو سنبھلنے کا کوئی موقعہ نہیں مل سکا۔
یہ سب محض 45 سیکنڈز میں ہوا اس قدر مختصر وقت میں بیچارے گن میںز سنبھل ہی نہیں سکے۔۔۔۔
ہم فوری طور پر وہاں سے نکل گئے اور اپنے سلیپنگ سیل جا پہنچے اس کام کے ہم تینوں کو ایڈوانس 3 لاکھ فی کس ملے تھے اور باقی رقم 2 لاکھ کام مکمل ہونے کے بعد ملنی تھی مجھے نہیں معلوم باقی لوگوں کو کتنی رقم ملی تھی نا ہمیں اس سے کوئی سروکار تھا ۔
اگلے دن تک ہمیں وہیں رکنا تھا لہذا ہم وہیں رہے ہمارے لئیے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا کھانا کھانے کے بعد ہم مووی دیکھنے لگے کہ اسی دوران امتیاز کمانڈو اور فیصل موٹا بھائی وہاں آپہنچے اور ہمیں تیار ہو کر ساتھ نکلنے کا کہا
ان کا لہجہ مجھے مختلف لگا میں نے پوچھا پلان میں تعبدیلی کیوں ؟
ہمیں تو کل تک یہیں رہنا تھا جواب میں کہا گیا ہائی کمان نے بلایا ہے وہین چل کر پتہ چلے گا کے کیا پلان ہے آگے کا۔۔۔۔۔
بس ان ہی سوالوں کو ذہن میں لئیے ہوئے ہم ان کے ساتھ چل پڑے بائیکس وہیں چھوڑنے کا آرڈر ملا ہم تینوں ان کی گاڑی ٹو یوٹا جی ایل آئی میں بیٹھ گئے ڈرائیونگ فیصل موٹا کر رہا تھا
گاڑی ناطم آباد کے علاقے میں پہنچی اور مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے ایک سرکاری اسکول کے قریب جا کر رک گئی
ہر طرف تاریکی اور سناٹے کا راج تھا ہمیں اترنے کا کہا گیا چند لمحوں میں ہم اسکول کے اندر ایک کلاس روم میں تھے
وہاں پہلے سے چند لوگ موجود تھے اور روشنی کے لئیے انھوں نے ایمرجینسی لائٹس روشن کی ہوئی تھیں مگر روشنی ناکافی تھی اس وجہ سے وہاں موجود لوگوں کی شکلیں واضع نہیں تھیں ۔
آجاو شیرو واہ کیا کام کیا ہے تم لوگوں نے میرے لئیے بالکل نئی آواز تھی ابھی میں نے جواب دینے کے لئیے منہ کھولا ہی تھا کہ پیچھے سے میرے سر پر کسی نے زوردار ضرب لگائی پھر مجھے ہوش نہیں رہا
نا جانے کب مجھے ہوش آیا میرے سر میں شدید ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اور دماغ میں ان گنت سوالات مگر میں نے آنکھیں نہیں کھولیں نا ہی کوئی ہل جل کی کچھ دیر میں اسی حالت میں پڑا رہا آہستہ آہستہ میں نے آنکھیں کھولیں مگر بدستور اندھیرا تھا مجھے اندازہ ہوا میرے ہاتھ کسی چیز کے ساتھ بندھے ہوئے تھے
اثنا میں قدموں کی اور کسی کی بولنے کی آواز آنے لگی وہ ادھر ہی آرہے تھے میں نے آنکھیں بند کر لیں وہ قریب آئے اور پھر میرے منہ پر تیز روشنی ڈال کر میرا چہرہ دیکھا یہ شھباز ہے یہ آواز میں پہچانتا تھا یہ فیصل موٹا کی آواز تھی پھر وہ میرے دوسرے ساتھیوں کی طرف مڑ گئے اور کسی کو ان کی شناخت سے آگاہ کیا
یہ صبح تک ہوش میں آئیں گے اب ان کا کرنا کیا ہے یہ جیسے پتہ چلتا ہے تم لوگوں کو بتاتا ہوں آنے والے شخص کی غیر مانوس آواز سنائی دی۔۔۔۔۔
ان کے وہاں سے جانے کے بعد میں نے دانتوں کی مدد سے ہاتھوں میں بندھی رسی کھولنے کی کوشش شروع کردی۔
ابھی شھباز کی داستان مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اس کا بلاوہ آگیا اور وہ عدالت میں داخل ہو گیا
ہم بھی آج وکیل کے ہمراہ عدالت میں جا پہنچے
توقع کے عین مطابق جج صاحب نے کہا کہ فیصلہ سنانے سے پہلے وہ شھباز کو موقع دینا چاہتے ہیں اگر وہ کچھ کہنا چاہتا ہے تو روسٹرم پر آجائے
شھباز نے وہ تمام باتیں دھرائیں جو وہ مجھے بتا چکا تھا یا اپنے بیان میں لکھوا چکا تھا جج صاحب پوری توجہ سے اس کی باتیں سن رہے تھے
جب میں نے اپنے ہاتھ کھول لئیے تو میں اندھیرے میں ٹٹولتا ہوا اپنے دوسرے ساتھیوں تک پہینچا اور ان کو ہلانا شروع کیا مگر وہ ٹس سے مس نا ہوئے۔۔
اسی دوران قدموں کی آواز سن کر میں واپس جگہ پر آیا اور رسی کو ہاتھ پر گھما کر اسی طرح لیٹ گیا
آنے والوں نے پھر ٹارچ جلا کر جائزہ لینا شروع کیا ایک نے دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا بدری بھائی آرڈر آگئے ہیں یہاں صفائی کرنے کے صفائی والے آنے ہی والے ہیں راتوں رات صبح ہونے سے پہلے صفائی کر کے سارا کچرا الگ الگ کچرا کنڈیوں میں پھینکنا ہے
میں سمجھ گیا کہ ہمیں قتل کرنے کی پلاننگ کرلی گئی ہے اور اسکے آرڈر آگئے ہیں تا کہ اس ہائی پروفائل کیس کا کوئی ثبوت باقی نہیں رہے۔
کیونکہ ہم تینوں ہی کا تعلق اس تنظیم سے نہیں تھا اس لئیے انھوں نے ہم سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا تھا میرے علاوہ ظفر اور عدنان بھی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کا شکار بن گئے تھے جس میں یقینا جلد از جلد زیادہسے زیادہ پیسے کمانے کی ہوس بھی شامل تھی۔۔
میرا دماغ تیزی سے چل رہا تھا میں اٹھ بیٹھا اور اس کمرے سے باہر نکلا یہ ایک کوریڈور تھا اس میں دائیں جانب کلاس رومز
بنے ہوئےتھے اور بائیں جانب ایک دیوار تھی جن میں جالیاں لگی ہوئی تھیں یہاں کل 5 کمرے بنے ہوئے تھے میں تیزی کے ساتھ آخری کمرے میں داخل ہوا کلاس میں دوسری جانب کی کھڑکی کو دھکا دیا تو وہ کھل گئی میں دوسری جانب اتر گیا یہ ایک میدان تھا میں نے کھڑکی دوبارہبند کردی اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگا اور دیوار تک جا پہنچا
اسی دوران مجھے آوازیں آنا شروع ہو گئیں ان کو میرے فرار کا پتہ چل چکا تھا میں اچھل کر دیوار پر چڑھا اور دوسری طرف کود گیا اب میں ایک گلی میں تھا اسی دوران 4 فائر ہوئے شائد انھوں نے ان دونوں کو قتل کردیا تھا
میں تیزی کے ساتھ ایک گلی سے دوسری گلی میں ہوتا ہوا وہاں سے نکل بھاگا
کئی دن تک میں ادھر ادھر چھپتا رہا میرے پاس نا موبائل تھا نا پیسے میں طارق روڈ قبرستان میں ہیرونچیوں کے ساتھ بیٹھا رہتا اور شام میں سیلانی والوں کا کھانا کھا کر قبرستان میں ہی گم ہو جاتا میرا زخم سوکھ گیا تھا بال خون سے لتھڑ کر چپکے ہوئے تھے دیکھنے والے مجھے نشئی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے تھے
کچھ لوگ ازراہ ہمدردی بنا میرے ہاتھ پھلانے کے مجھے پیسے دے گئے جو میں نے سنبھال کر رکھ لئیے
دوسری طرف پولیس میرے تعاقب میں تھی میرا موبائل جس لڑکے کے ہتھے چڑھا وہ اسے استعمال کرتا رہا مگر ہر بار وہ فون بند کردیتا تھا پولیس سمجھتی رہی کہ میں ایسا کر رہا ہوں جب کہ میں طارق روڈ کے قبرستان میں چھپا بیٹھا تھا
گھر والوں کی فکر بھی کھائے جا رہی تھی دل اداس ہو جاتا تھا جب امی کا خیال آتا تھا اسی لئیے میں نے اپنے دوست
ذیشان سے رابطے کا سوچا اور اس دن میں ذیشان کے آفس کے پاس جا پہنچا اور دور سے جائزہ لیتا رہا
میری آنکھوں کے سامنے ہی ذیشان کو سی آئی اے والے اٹھا کر لے گئے
میں گھبرا گیا لیکن بے بس تھا اسی لمحے اللہ کی یاد آئی جسے میں بھلا بیٹھا تھا میں دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرنے لگا اور اپنے دوست اور گھر والوں کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگا کہ میرے گناہوں کی سزا ان لوگوں کو نا ملے
بھوک نے ستایا تو ایک بن کباب والے کے ٹھیلے کے پاس چلا گیا اس سے بن کباب لے کر وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کھانے لگا
مجھے فرار ہوئے آج تیسری رات تھی
اچانک کسی نےمجھے پیچھے سے آکر پکڑ کر اٹھا لیا اور ایک پک ا پ میں ڈال کر روانہ ہو گئے میں دوبارہ ان کی گرفت میں آگیا تھا اور اس بار انھوں نے وقت ضائع کئیے بغیر مجھے گاڑی میں ہی گولیاں مار کر سڑک کنارے پھینک دیا ان کی دانست میں انھوں نے مجھے مار دیا تھا
لیکن اللہ نے مجھے ایک بار پھر ذندگی دی
میں عدالت سے زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا لیکن میں کوئی عادی مجرم نہیں تھا ایک شریف لڑکا تھا
مگر میں مجرم ہوں میں نے براہ راست قتل نہیں کئیے مگر ان تمام ٹارگٹ کلنگ کا حصہ رھا
میں جانتا ہوں یا اللہ جانتا ہے میں نے تمام فائر جو کئیے کبھی بھی ٹارگٹ پر نہیں کئیے میں جان بوجھ کر پسٹل کا رخ نیچے کی جانب رکھتا تھا اور یہ بات میں سزا میں تخفیف کی نیت سے نہیں کہہ رہا یہ بالکل سچ ہے
عدالت مجھے جو سزا دے گی مجھے قبول ہے۔۔۔۔۔
اس شہر میں کئی سلیپنگ سیلز ہیں جہاں ٹارگٹ کلرز پناہ لیتے ہیں۔۔۔بہت ساری ٹیمیں بنی ہوئی ہیں
سب کی ڈوری ملک سے باہر بیٹھے بڑے بڑے بھگوڑے ہلاتے ہیں جو ساوتھ افریقہ اور لندن میں مقیم ہیں اور یہاں جن لوگوں سے میرا واسطہ پڑا میں نے وہ سارے نام آپ کو بتا دئیے۔
میں جو جانتا تھا وہ سب حلفا جی آئی تی کے سامنے بتا چکا ہوں ہاں کچھ نام نہیں بتائے تھے جو سب کے سب عدالت کے سامنے پیش کر دئیے ہیں۔۔۔۔
اب سب کو جج صاحب کے فیصلے کا انتظار تھا چہ مگویاں جاری تھیں
آرڈر آرڈر جج صاحب کی آواز نے کمرہ عدالت میں خاموشی طاری کردی جج صاحب نے بولنا شروع کیا ملزم کا آج عدالت کے سامنے دیا گیا بیان اور جے آئی ٹی رپورٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت اس نتیجے پر پہینچی ہے ملزم شھباز احمد ولد مرحوم ذوالفقار احمد کے تمام جرائم ثابت ہوگئے ہیں لیکن کیونکہ عدالت کو ایسا محسوس ہوا کہ ملزم حالات کا شکار ہوا اور اس کے اندر کی انسانیت مری نہیں بلکہ زندہ ہےاور یہ کہ اس کو خود بھی دو مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔
عدالت شک کا فائدہ ملزم کو دینا چاہتی ہے مگر ٹارگٹ کلنگز کیسسز میں کوئی رعائت دینے کے ہم ہر گز متحمل نہیں ہو سکتے
لہذا عدالت سب سے پہلے پولیس کو حکم دیتی ہے کہ ملزم نے جن لوگوں کے چہرے سے نقاب اتارا ہے ان سب کو فی الفور گرفتار کیا جائے ملزم کے اہل خانہ کے جان و مال کی حفاظت کا ذمہ پولیس اور دیگر قانوںن نافظ کرنے والے اداروں کا ہے
اس میں کسی قسم کی کوتاہی عدالت قبول نپہیں کرے گی۔
عدالت ملزم کو ان کیسز میں مجرم قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا سنا تی ہے
آج کل شھباز جیل میں ہے ہم نے سزا کے خلاف نطر ثانی کی درخواست دے رکھی ہے لیکن شھباز کو اور مجھے بھی یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ جلد یا بدیر پھانسی اس کا مقدر ہے۔۔۔۔
ختم شد
No comments:
Post a Comment